بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر
: مسزانصاری
یہ خرافات اندرونِ
شہر میں بے شمار خاص جگہوں پر پائی جاتی ہیں ۔ ان کے تحت لوگ اپنے سر سے ، یا
بچوں کے سر سے گوشت وارتے ہیں اور چیل کووں کو کھلاتے ہیں ، نیز یہ بھی دیکھنے میں
آیا ہے کہ لوگ منوں کے حساب سے دانہ ڈالتے پھرتے ہیں ۔ لاہور میں مین کنال (نہر)
پر بہت بہت لوگ ہاتھوں میںگوشت کے ٹکڑے لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ رُک رُک وہ
گوشت خریدتے ہیںاور خریدنے کے بعد وہیںپر گِراتے جاتے ہیں تاکہ آس پاس کوے
منڈلا رہے ہوتے ہیں۔
دریا راوی کے اوپر
پل پر لوگ صبح سے شام تک لائنوں میں گوشت لے کر کھڑے ہوتے ہیںاور راہگیر رُک رُک
کر وہ گوشت اپنے سر سے وارتے ہیںاور چیل کووں کو کِھلاتے ہیں ۔ یعنی لوگ اپنا
صدقہ ہی اُتارتے ہیں۔
يہ صدقہ كا كوئى
مشروع طريقہ نہیں ، قرآن و سنت ميں صدقے كا يہ طريقہ نہیں تعلیم دیا گیا ہے ۔ اپنے
سر کا صدقہ ، بچوں کا صدقہ یا دوسرے لوگوں کے صدقات جانوروں کو کھلانا کسی شرعئی
نص سے ثابت نہیں۔
رحم کے جذبہ سے
اور اجرو ثواب کی امید سے بھوکے چرند پرند کا کھانا کھلانا مستحسن ہے لیکن خاص
وجوہات کی نیت سے اور خاص عملیات کے ساتھ خاص خاص جگہوں پر جانوروں کو کھلانا جائز
نہیں ہے
صدقہ ایک
مشروع و مستحسن عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی امید پر کیا جاتا ہے ، اسلام میں
صدقات کی مشروعیت واضح ہے
حضرت ابوہریرہ
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر روز جس میں سورج
طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تمہارا دو آدمیوں کے درمیان انصاف
کرنا بھی صدقہ ہے، کسی بندے کو سواری پر بٹھانے یا اس کا سامان اوپر اٹھا کر اس پر
رکھوانے میں اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے اچھی بات کرنا صدقہ ہے اور ہر اس قدم پر
صدقہ ہے۔ جس سے چل کر تو مسجد کی طرف جائے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کردینا
بھی صدقہ ہے۔''
(متفق علیہ)
اسی حدیث
کو امام مسلم نے بھی حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نبی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں کے
ساتھ پیدا کیا گیا ہے، پس جس شخص نے اللہ اکبر کہا، الحمد اللہ کہا، لا الہ الا
اللہ کہا، سبحان اللہ کہا، استغفر اللہ کہا، لوگوں کے راستے سے کسی پتھر ،کسی
کانٹے یا کسی ہڈی کو دور کردیا یا نیکی کا حکم دیا یا کسی برائی سے منع کیا اور اس
نے تین سو ساٹھ مذکورہ کام کیے تو وہ اس روز اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس نے اپنے
نفس کو جہنم کی آگ سے بچالیا ہوتا ہے۔''
توثیق الحدیث:
أخرجہ البخاری (3095،فتح)'ومسلم (1009)' وحدیث عائشة عن مسلم(1007)
حضرت ابو
ذرؓ ہی سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھے فرمایا: ''نیکی کے کسی بھی
کام کو حقیر مت سمجھو اگر چہ وہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔''
توثیق الحدیث:
أخرجہ مسلم (2626)
حضرت ابوذر
رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم! مالدار لوگ بہت زیادہ اجر لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم نماز
پڑھتے ہیں، وہ روزے رکھتے ہیں جیسے ہم روزے رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے زائد مال سے
صدقہ کرتے ہیں (جو ہم نہیں کرتے)" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسی چیزیں نہیں بنائیں جن سے تم بھی صدقہ کرو؟ یقیناً
ہرتسبیح (سبحان اﷲ) کہنا صدقہ ہے، ہر تکبیر (اﷲ أکبر) کہنا صدقہ ہے، ہر تحمید
(الحمد للہ) کہنا صدقہ ہے۔ ہر تہلیل (لا الہ الا اللہ) کہنا صدقہ ہے، نیکی کاحکم
کرنا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تمہاری اپنی شرم گاہ (اپنی بیوی سے
صحبت) میں بھی صدقہ ہے۔'' انھوں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! ہم میں سے
کوئی ایک اپنی شہوت پوری کرے تو کیا اس میں بھی اس کیلئے اجر ہے؟" آپ نے
فرمایا: ''مجھے بتاؤ اگر وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرے تو اس پر اسے گناہ
ہوگا؟ پس اگر وہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اس پر اس کے لیے اجر ہو ہوگا۔''
مسلم/توثیق
الحدیث: أخرجہ مسلم (1006)
حضرت ابوذر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے
ہر ایک کے ہر جوڑ پر صبح کو ایک صدقہ ہے، پس ہر تسبیح (سبحان اللہ) کہنا صدقہ ہے ہر حمد
(الحمداللہ) کہنا صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہ الااللہ) کہنا صدقہ ہے اور ہر تکبیر
(اللہ اکبر) کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے
اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھے۔''
/مسلم/توثیق
الحدیث: أخرجہ مسلم(720)
حضرت ابوہریرہ
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر روز جس میں سورج
طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تمہارا دو آدمیوں کے درمیان انصاف
کرنا بھی صدقہ ہے، کسی بندے کو سواری پر بٹھانے یا اس کا سامان اوپر اٹھا کر اس پر
رکھوانے میں اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے اچھی بات کرنا صدقہ ہے اور ہر اس قدم پر
صدقہ ہے۔ جس سے چل کر تو مسجد کی طرف جائے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور
کردینا بھی صدقہ ہے۔''
(متفق علیہ)
اسی حدیث کو امام
مسلم نے بھی حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ''نبی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں کے ساتھ پیدا کیا گیا
ہے، پس جس شخص نے اللہ اکبر کہا، الحمد اللہ کہا، لا الہ الا اللہ کہا، سبحان اللہ
کہا، استغفر اللہ کہا، لوگوں کے راستے سے کسی پتھر ،کسی کانٹے یا کسی ہڈی کو دور
کردیا یا نیکی کا حکم دیا یا کسی برائی سے منع کیا اور اس نے تین سو ساٹھ مذکورہ
کام کیے تو وہ اس روز اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کو جہنم کی آگ سے بچالیا
ہوتا ہے۔''
توثیق الحدیث:
أخرجہ البخاری : 3095/ مسلم : (1009)/ حدیث عائشة عن مسلم : (1007)
تاہم اس کا مطلب
ہر گز یہ نہیں ہے کہ جانور پر رحم نہ کیا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم
بقدم جانوروں کے ساتھ رحم وکرم کاحکم دیا ہے ، نہ صرف گھریلو اور پالتو
جانوروں؛بلکہ غیر پالتو جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے ۔ جانور یا
پرندے کو بھوکا دیکھ کر انہیں کھانا یا چارہ ، کھلایا جائے، بھوکے جانوروں یا
پرندوں کو کھانا کھلانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے۔
ہم پر جانوروں پر
رحم کرنا واجب ہے کیونکہ یہ ہمارے نبی علیہ السلام کا عمل ہے ۔ ہمارے سامنے اگر بھوکا
پیاسا جانور کو تو ہمیں اسے کھلانا پلانا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو
۔ایک بدکار عورت کی مغفرت صرف اس لیے ہوئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا
تھا۔
تاہم صدقہ کا پہلا
مستحق انسان ہے ۔ انسان چوں کہ اشرف المخلوقات ہے، اسلیے نفلی صدقہ کا زیادہ حقدار
انسان ہے ۔ اگر انسان اور جانور دونوں بھوکے ہوں اور کھانا کسی ایک کے لیے ہی پورا
ہوسکتا ہو تو پھر انسان کو ہی کھانا کھلانا چاہیے۔ اسی طرح صدقاتِ واجبات (زکاۃ،
فطرہ وغیرہ) بھی کسی جانور کو کھلانا جائز نہیں ہے۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا
تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment